سابق وزیر اعظم نواز شریف جو اپنی نااہلی کے فیصلے پر سیخ پا ہیں جس روز جڑانوالہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے ، اسی روز گوجرانوالہ سے ایک کمسن معذور بھکاری بچے احسن کے سردی سے ٹھٹھر کر جان بحق ہونے سمیت اسکی نعش کو جنگلی جانوروں کے نوچ نوچ کر کھانے کی ایسی دل سوز خبر آئی کہ ہمارے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی اور دماغ شل ہوگیا ، زبان گنگ ہو گئی ، کانوں میں شاں شاں کی آوزایں گونجنے لگیں ،شیخو جی نے بھرآئی آواز میں خیا لی صاحب سے کہا ہم کیسے انسان ہیں ، کیسے کلمہ گو ہیں کیسے سرکار دوعالم کی شفاعت کے طلبگار ہیں ۔
خیالی صاحب جو خود یہ اندوہناک واقعہ سن کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے شیخو جی کے پے در پے سوالات پر چیخ اٹھے اور کہا شیخو جی واقعی وہ زمانہ آگیا جس کی پیش گوئی سرکار دو عالم نے کی تھی کہ دنیا شر ، بد امنی، بے حسی ، نا انصافی سے بھر جائے گی ، اس سے زیادہ بے حسی اور خود غرضی کسی معاشرے میں اور کیا ہو سکتی ہے ؟
شیخو جی!پولیس تھانہ سٹی پسرور نے گوجرانوالہ میںمعذور گداگر بچے احسن کے قتل کا مقدمہ گداگر گینگ کے سرغنہ کےخلاف درج کیا،اس ضمن میں کیا کچھ پیش رفت ہوئی تاحال کچھ پتہ ہی نہیں ،بتایا جا تا ہے معصوم معذور احسن سے ٹھیکیدار مظہرجوگی بھیک مانگنے کیلئے روزانہ صبح مخصوص مقام پر بٹھا جاتا تھا اور رات کو واپس لے جاتا تھا مگر اس روز ہی نہیں بلکہ مسلسل 2روز گز ر جانے کے باوجود بھی وہ احسن کو واپس لینے نہ آیا اورمعصوم احسن سردی سے ٹھٹھر کر خالق حقیقی سے جا ملا جبکہ اس کی نعش کو جنگلی جانور نوچتے رہے، اہل علاقہ کو بھی اس معصوم پر ترس نہ آیا ،اسی طرح مظہر جوگی تیسرے دن معصوم احسن کو لینے کیلئے آیا تو اسے مردہ اور مسخ شدہ نعش کی صورت میں دیکھ کر بجائے اس کے کہ اسکی تجہیزو تد فین کا بندوبست کرتا الٹا پسرور میں معصوم احسن کی مسخ شدہ نعش اس کے گھر کے سامنے پھینک کر فرار ہو گیا، سنگدل کہا جائے یا مجبور بچے کے والد محمد یوسف کے جس نے احسن کو بھیک مانگنے کیلئے مذکورہ ٹھیکیدار کو بیچ رکھا تھا یا دیہاڑی لیتا تھا ، تھانے پہنچ گیا اور احسن کے قتل کا مقدمہ گداگر گینگ کے سرغنہ مظہر جوگی کےخلاف درج کرادیا۔
خیالی صاحب بو لے ،الا امان الحفیظ ،شیخو جی اس روز نواز شریف کا خطا ب سنا تھا کہہ رہے تھے اگلا الیکشن نااہلی فیصلے کےخلاف ریفرنڈم ہوگا، جو بھی وعدہ کیا پورا کیا،میرے دور میں ڈرون حملے بند، لوڈ شیڈنگ ختم ، دہشتگردی پر قابو پالیا گیا لیکن آج پھر ملک میں افرا تفری پھیل رہی ہے اور ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ تحریک عدل اب رکنے والی نہیں، اس تحریک کے ذریعے سستا، کھرا اور گھر کی دہلیز پر انصاف کو یقینی بنائیں گے۔
شیخو جی بولے ،اسی روز وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا قانون شکنی کرنےوالوں کےساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔معصوم زینب قتل کیس ہمارے لئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے، کسی کو شفاف اور بے لاگ تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پنجاب حکومت نے انصاف کے منافی کوئی کام کیا نہ آئندہ کسی کو کرنے دیا جائے گا۔
خیالی صاحب بولے شیخو جی اسی روز چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا پنجاب اور سندھ کی پولیس ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری میں فرق صرف طریقہ واردات کاہے۔آصف زرداری ایک مصدقہ مجرم ہے،شہبازشریف پر بھی ماورائے عدالت قتل کا الزام ہے۔ زینب اور عاصمہ کے قتل کے معاملے میں فرق ہے،عاصمہ کے والد نے آرمی چیف سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ نہیں کیا کیونکہ انہیں خیبر پختونخوا کی پولیس پر اعتماد ہے۔اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ڈیووس میں کہنا تھا کسی بھی شخص کو معاشرے میں نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں، اسی روز رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد العیسیٰ کا کہنا تھا اسلام بے قصور لوگوں کی پاسبانی کرتا ہے اور کسی بھی بے قصور انسان کے قتل یا اس پر ظلم کے احتساب کا علمبردار ہے۔ اس روز خطبہ جمعہ میںمسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر سعود الشریم کا کہنا تھا بعض لوگ گناہوں کو معمولی سمجھ کر معصیت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گناہ کوئی بھی معمولی نہیں ہوتا،ہر گناہ سے پرہیز کریں۔ اغیار کےساتھ معاملات میں توازن پیدا کریں، انکے ساتھ اچھا سلوک کریں،حسن اخلا ق اور حسن معاشرت کو اپنی شناخت بنائیں، اعتبار کے رشتے قائم کریں، منہدم نہیں۔ حسن ظن کو فروغ دیں، بدظنی کو نہیں، ہر حقدار کو اس کا حق ادا کریں، انسانی زندگی میں اخلاق کلیدی درجہ رکھتے ہیں۔ انسان کے کردار اور گفتار کا معیار اچھے اخلاق ہی ہیں۔ حکمت و معقولیت انسان کو متوازن اور متناسب مقاصد دلاتے ہیں، حکمت و فرا ست ہی سے انسان کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے۔ جو لوگ کسی کا حق جانتے ہوئے اسکا حق مارتے ہیںوہ ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہیں،اگر فرد کےساتھ یہ کام ہو تب برا اور معاشرے کےساتھ ہو تو اور زیادہ برا ، اسی طرح مسجد نبو ی کے امام و خطیب شیخ عبداللہ البعیجان کا خطبہ جمعہ میں علم اور اسکی اہمیت کے بارے میں کہنا تھا دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کیلئے علم بنیاد کے پتھر کا درجہ رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا تو علم کو اس کی بنیاد قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر فرض کی ادائیگی کیلئے علم و عقل کی شرط رکھی ہے۔ علم کے ذریعے ہی انسان رب کے احکام سمجھتا اور تعمیل کرتا ہے۔ قرآن کریم نے ہمیں سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔علم تربیت کا موثر ترین ذریعہ اور تزکیہ کا معتبر ترین وسیلہ ہے، اسکی بدولت انسان فتنوں سے محفوظ ، آزمائش میں ثابت قدم رہتا ہے۔ مصیبت کے وقت صبر بھی اسکی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ علم اچھائیوں ، اللہ تعالیٰ سے قریب کرنےوالے امور اور درجات کی بلندی والے امور کی روشنی دیتا ہے۔
شیخو جی بولے خیالی صاحب کیا آپ جانتے ہیں وطن عزیز میں ہر روز اوسطاً گیارہ بچوں اور بچیوں کو ریپ اور گینگ ریپ سمیت جنسی استحصال اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،؟ سالانہ قریب سو نابالغ لڑکے لڑکیوں کو ریپ کے بعد قتل بھی کر دیا جاتا ہے، بچوں اور بچیوں کے اغوا، ریپ، جنسی استحصال اور پھر قتل جیسے جرائم کے پولیس کو رپورٹ کیے گئے واقعات سے متعلق سالانہ اعداد و شمار کے مطابق وطن عزیزکے لڑ کو ں اور لڑکیوں کےلئے گیارہ سے پندرہ برس تک کی عمر انتہائی پ±رخطر ہو چکی ہے، اس کے بعد انہی بچوں اور بچیوں کی ان کےخلاف جنسی جرائم کے حوالے سے قومی ڈیٹا کے مطابق دوسری خطرناک ترین عمر چھ سے گیارہ برس تک کے درمیان ہے۔اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار محض پولیس کو رپورٹ کیے گئے ایسے جرائم کے ہیں جبکہ ایسے بہت سے جرائم کے مقدمات درج کرائے ہی نہیں جاتے۔ یوں پاکستان میں مستقبل کے معمار قرار دیے جانےوالے نابالغ بچوں اور بچیوں کےخلاف اس نوعیت کے جنسی جرائم کی اصل سالانہ تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ ایسے جرائم کو روکنا صرف کسی ایک فرد یا ادارے کا کام نہیں بلکہ یہ معاشرے کے ہر طبقے کی ذمے داری ہے۔
خیالی صاحب بولے ،شیخو جی ہماری معاشرتی سوچ تو یہ ہے اگر کوئی لڑکا، لڑکی، مرد یا عورت ایسے کسی جرم کا شکار ہو جائے، تو مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے بدنامی کا خوف زیادہ ہوتا ہے، اسی بدنامی کے ڈر سے بہت سے جرائم رپورٹ ہوتے ہی نہیں، مظلوم کو ہمدردی کی جگہ طنز اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شیخوجی کو مخاطب کرتے ہوئے خیالی صاحب نے کہا بچوں سے جنسی زیادتی جیسے جرائم کی وجہ بننے والی ذہنیت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
شیخو جی بولے معاشرے کا سب سے غیر محفوظ طبقہ بچے ہوتے ہیں، جو بڑوں کی دنیا میں رہنے کا ہنر اور اپنی معصومیت کی وجہ سے اپنی حفا ظت کے تقاضوں کی کافی سمجھ نہیں رکھتے۔ بڑوں کی طرح بچوں میں بھی چھٹی حس تو ہوتی ہے لیکن ان میں تکلیف دہ اور جان لیوا خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔ مذہب اور سماجی روایت کے باعث بچوں سے اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی۔سکولوں میں بچوں کو سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی، اسی لیے بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں، یہ حقیقت تکلیف دہ ہے، لیکن وجوہات دیکھیں تو حیران کن نہیں۔ ایسے جرائم کا سبب بننے والے عوامل سے نمٹنے کےلئے قانون اور پولیس سے بھی زیادہ اہمیت معاشرے کی اجتماعی ذمے داری کی ہے۔جب کسی مظلوم سے اس کے ارد گرد کا معاشرہ بھی ہمدردی نہ کرے، تو بات ظلم در ظلم تک پہنچ جاتی ہے، جسکا آج ہم شکار ہیں ورنہ دوسری کوئی وجہ ہی نہیں ۔